دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی کووڈ 19 کے وبائی مرض میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کورونا کی روک تھام کے ادارے این سی او سی کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 1649 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ملک بھر میں مثبت کیسز کی شرح 3.66 فیصد رہی ہے۔
پاکستان میں صحت حکام کے مطابق دنیا بھر کی طرح کووڈ 19 کا اومیکرون ویریئنٹ پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث مثبت کیسز کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں گذشتہ روز اس کووڈ وائرس کے باعث تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت یونٹس میں موجود کورونا متاثرین کی تعداد 617 ہے۔
امریکہ، فرانس، برطانیہ، ارجنٹائن، برازیل، انڈیا اور بہت سے دوسرے ممالک میں کورونا کے ڈیلٹا اور اومیکرون ویریئنٹ کے ریکارڈ تعداد میں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
دوسری جانب سائنسدان، ڈاکٹرز اور صحت عامہ کے نگران ادارے کووڈ سے بچاؤ کے لیے اُن مختلف ویکسینز پر انحصار کیے ہوئے ہیں جن کا پہلے ہی دنیا بھر میں تجربہ کیا جا چکا ہے اور ان کو انفیکشن سے بچاؤ کے لیے منظور کیا جا چکا ہے۔
یہاں ہم اس بات کا تجزیہ کریں گے کہ یہ ویکسینز وبائی مرض پر قابو پانے میں کتنی کامیاب ہیں۔
کووڈ ویکسین کے بارے میں جھوٹے دعوؤں کو جگہ مل رہی ہے
امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک میں کووڈ 19 کے نئے کیسز کے روزانہ ریکارڈ اضافے کو دیکھتے ہوئے کووڈ ویکسین کی افادیت پر ایک بار پھر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی ہے۔
جہاں کچھ صارفین ویکسین لگوانے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تو وہیں دوسرے لوگ ویکسین کے ممکنہ مضر اثرات کی مذمت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
اب تک مشاہدے میں ویکسینز کے جو ضمنی اثرات سامنے آتے ہیں ان کی نوعیت بہت ہلکی ہے اور ویکسین لگنے کے چند ہی روز میں یہ اثرات بھی دور ہو جاتے ہیں۔ ویکسین لینے کے بعد اہم شکایات میں انجکشن کی جگہ پر درد اور سرخی کا آنا، بخار، سر درد، تھکاوٹ، پٹھوں میں درد، سردی لگنا اور متلی وغیرہ جیسی علامات شامل ہیں۔
علامات بڑھنے کی صورت میں ڈاکٹر سے مشورے کے لئے مرہم کی سائٹ وزٹ کریں یا 03111222398 پر رابطہ کریں
ماہرین کا کہنا ہے کہ اینا فلیکسس، تھرومبوسس، پیریکارڈائٹس اور مایوکارڈائٹس (دل کی سوزش) جیسے سنگین حالات شاذ و نادر ہی پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اُن کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے فوائد ان خطرات (ضمنی اثرات) سے کہیں زیادہ ہیں۔
بی بی سی نے متعدی امراض کے ماہر ریناٹو کفوری سے موجودہ ویکسین کی افادیت اور اس حقیقت کے بارے میں بات کی کہ ٹیکے لگوانے والے افراد میں کورونا وائرس کے انفیکشن کیونکر ہوتے ہیں اور کیا وہ اسے دوسروں میں منتقل بھی کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کووڈ 19 کی پہلی لہر کے خلاف جو ویکسین تیار کی گئی ان میں فائزر، ایسٹرا زینیکا اور ساتھ ساتھ دوسری ویکسینز بھی شامل ہیں۔ ان کا مقصد بیماری کو سنگین ہونے سے پیدا ہونے کے خطرے کو کم کرنا ہے، وہ خطرہ جس میں متاثرہ فرد کو ہسپتال داخل ہونا پڑ سکتا ہے یا انتہائی حالات میں موت واقع ہو سکتی ہے۔
برازیلین سوسائٹی آف امیونائزیشن کے ڈائریکٹر کفوری نے واضح کیا کہ ’ویکسین کووڈ کی اعتدال پسند، ہلکی یا غیر علامتی شکلوں کے مقابلے میں زیادہ سنگین شکلوں کے خلاف زیادہ بہتر حفاظت کرتی ہیں۔ یعنی کووڈ جتنا زیادہ سنگین ہو گا، ویکسین کی تاثیر اتنی ہی زیادہ ہو گی۔’
اس لیے ان ٹیکوں کا بنیادی مقصد کبھی بھی خود انفیکشن کو روکنا نہیں تھا بلکہ کورونا وائرس کے حملے کے خلاف جسم میں زیادہ مدافعت پیدا کرنا تھا تاکہ کورونا کا حملہ جسم کے لیے کم نقصاندہ ہو۔
یہی بات فلو ویکسین پر بھی عائد ہوتی ہے، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے دستیاب ہے۔
فلو کی خوراک، جو ہر سال دی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ وہ انفلوئنزا وائرس کے انفیکشن کو نہیں روکتی، لیکن یہ سب سے زیادہ کمزور گروہوں، جیسا کہ بچوں، حاملہ خواتین اور بوڑھوں کو متواتر پیچیدگیوں سے بچاتی ہے۔
وسیع تر منظرنامے پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انتہائی سنگین صورتحال کے خلاف یہ تحفظ پورے نظامِ صحت پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے: سانس کے انفیکشن کی شدت میں کمی سے ایمرجنسی رومز کی بھیڑ میں کمی، ایمرجنسی کیئر وارڈز میں بستروں کی زیادہ دستیابی اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والی ٹیم کو مریضوں کا مناسب علاج کرنے کے لیے زیادہ وقت ملنا شامل ہے۔
اور اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ویکسین اس کردار کو بہت اچھی طرح سے ادا کر رہی ہیں۔ کامن ویلتھ فنڈ کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف خوراک سے نومبر 2021 تک صرف امریکہ میں دس لاکھ سے زیادہ اموات اور ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کے ہسپتال میں داخل ہونے سے بچنے میں مدد ملی۔
یوروپی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (ای سی ڈی سی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا اندازہ ہے کہ جب سے بیماری کے خلاف ویکسین دینے کا کام شروع ہوا ہے یورپ کے 33 ممالک میں 60 سال سے زیادہ عمر کے 470,000 لوگوں کی جانیں بچائی جا چکی ہیں۔
موجودہ صورتحال کیا ہے؟
یہ بات ناقابل تردید ہے کہ حالیہ دنوں میں ویکسین لگوانے والے بہت سے لوگوں میں دوبارہ انفیکشن رپورٹ ہوا ہے اور اس کی وضاحت تین عوامل سے کی جا سکتی ہے۔
پہلی وجہ آسان ہے: لوگ روایتی طور پر اکٹھے ہوئے اور نئے سال اور کے دوران جشن منایا گيا جس سے کورونا وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کے کچھ حصوں میں ویکسین کے دستیاب ہونے کے تقریباً ایک سال بعد ماہرین کو یہ پتا چلا ہے کہ ویکسینیشن کے بعد کووڈ 19 کے خلاف قوت مدافعت ہمیشہ قائم نہیں رہتی۔
کفوری بتاتے ہیں: ’ہم نے دیکھا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ تحفظ کی سطح میں کمی آتی ہے۔ یہ کمی ویکسین کی قسم اور ہر فرد کی عمر کے لحاظ سے زیادہ یا کم ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر کفوری کا مزید کہنا ہے کہ ’اس بات نے ویکسین کی تیسری خوراک (بوسٹر شاٹ) لینے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے، جو کہ پہلے بوڑھوں اور کم قوت مدافعت والے افراد کے لیے اور پھر پوری بالغ آبادی کے لیے ہو گی۔‘
تیسری وجہ اومیکرون ویریئنٹ کی آمد سے متعلق ہے، جو زیادہ تیزی سے منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جس کے خلاف ویکسین یا سابقہ کووڈ کی صورت میں حاصل کی گئی قوت مدافعت کم مؤثر دکھائی دیتی ہے۔
کفوری کا کہنا ہے کہ ’اس کو دیکھتے ہوئے، ویکسین شدہ افراد کو انفیکشن ہونے کو عام چیز کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور ہمیں اس طرح کی صورتحال کے ساتھ جینا سیکھنا پڑے گا۔‘