اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ سے مراد ایک جدید طریقہ علاج ہے ۔ ذیابطیس کے مریضوں کے علاج کے لیۓ سائنسدانوں نے ایک نئي ٹیکنیک اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ ایجاد کی ہے۔ جس کے ذریعے انسولین پیدا کرنے والے سیل بناۓ جا رہے ہیں۔ جو کہ انسان کے اندر ٹرانسپلانٹ کیۓ جا سکتے ہیں۔ جو ان کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کر سکتے ہیں
ٹائپ 1 ذیابطیس اور اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ کا تعلق
ٹائپ 1 ذیابطیس میں جسم اپنے اندر موجود بیٹا سیل پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور پنکریاز میں آئيسلیٹ نام کے گچھے بنا لیتا ہے یہ بیٹا سیل خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور انسولین کا اخراج کرتے ہیں جو کہ شوگر لیول کو کنٹرول کرتا ہے ان کے بغیر ذیابطیس کے ۔مریضوں کو انسولین کے انجکشن یا ادویات پر انحصار کرنا پڑتا ہے
آئسلٹ سیل کی ٹرانسپلانٹنگ
اس بیماری کا ایک علاج کسی صحت مند انسان کے آئسلیٹ سیل کی ذیابطیس کے مریض کے اندر ٹرانسپلانٹنگ بھی ہے ۔مگر یہ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس میں بہت ساری دشواریاں موجود ہیں جن میں سب سے اہم ڈونر کی کمیابی ہے
جب ان خلیات کو جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے تو اکثر ان کو خون کی سپلائی نہیں ملتی جس کے سبب یہ مر جاتے ہیں اور اگر سپلائي مل بھی جاۓ تب بھی جسم کا اپنا مدافعتی نظام ان خلیات کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے
جس کے سبب مریض کو اس ٹرانسپلانٹ کو محفوظ رکھنے کے لیۓ ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو ان کے مدافعتی نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور باقی جسم بیماری کا شکار ہو جاتا ہے
ذیابیطس کے مرض کے لیۓ اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ
ان مشکلات کو دیکھتے ہوۓ سائنسدانوں نے آئسلیٹ کی جگہ پر انڈیوسڈ پلوریپوٹینٹ اسٹیم سیل کے استعمال کا فیصلہ کیا ۔ جو آئسلیٹ سے مماثل تو ہوتے ہیں مگر ان کو ہالوز کا نام دیا گیا ہے ۔ ان خلیات کو جب جینیٹک سوئج سے جوڑا جاتا ہے تو یہ تیزی سے انسولین پیدا کرنے لگتے ہیں
جب اس تجربے کو ذیابطیس میں مبتلا چوہوں پر کیا گیا تو اس سے نہ صرف ان کی شوگر وقتی طور پر کنٹرول ہوئی بلکہ اس کے دورس اثرات بھی دیکھنے کو ملے۔ اس حوالے سے رونالڈ ایوان جو کہ جین ایکسپریشن لیب کے ڈائریکٹر بھی ہیں ان کا یہ کہنا تھا کہ اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ کے دیر پا نتائج کا ملنا بہت حوصلہ افزا ہے
ماضی میں ایسی کوئی بھی ٹریٹمنٹ ایک ماہ سے زیادہ کسی جاندار پر موثر ثابت نہیں ہوتی تھی اس وجہ سے اب امید پیدا ہو گئی ہے کہ ذیابطیس کی بیماری کا اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ کے ذریعے دیر پا علاج کیا جا سکے گا یعنی انسانون کے جسم میں ہالوز کو ٹرانسپلانٹ کر کے اس سے شوگر لیول کو کنٹرول کیا جا سکے گا
اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ میں دشواری
اب جب سپلائي چین پرابلم کو حل کر لیا گیا ہے تو اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ کی راہ میں سائنسدانوں کے لیۓ سب سے بڑي دشواری انسان کے جسم کا اپنا مدافعتی نظام ہے جو کہ کسی بھی بیرونی خلیے کے جسم میں داخلے کی صورت میں ان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں اسکے علاج کے لیۓ سائنسدانوں نے پی ڈی ایل 1 جو کہ ایک چیک پوائنٹ پروٹین ہے اس کے استمعال کا فیصلہ کیا ہے
اس پروٹین کا استعمال عام طور پر کینسر کے مریضوں میں اس کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیۓ کیا جاتا ہے ۔ مگر ہالوزکے استعمال کے لیۓ اس پروٹین کا الٹ استعمال کیا جاۓ گا اس میں ہالوز خلیات کے ساتھ ایسی حفاظتی شیلڈ بنائی جاۓ گی جو کہ انسان کے جسم میں جب ان کو داخل کیا جاۓ گا تو مدافعتی نظام کو وہ نظر ہی نہین آۓ گی
اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ پر حفاظتی شیلڈ کے اثرات
سائنسدانوں کے مطابق جب انہوں نے ہالوز کو بغیر حفاظتی شیلڈ کے چوہوں کے اندر رکھا تو انہوں نے چند ہی دن میں کام کرنا چھوڑ دیا مگر جن چوہوں میں پروٹین شیلڈ لگائی گئي تھی ان کے اندر اسٹیم سیل نے پچاس دن تک اپنا کام جاری رکھا جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے ایوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انسولین پیدا کرنے والے خلیات بنا کر اور ان کو جسم میں کامیابی سے ٹرانسپلانٹ کرنے کے اس تجربے کے بعد ہم ٹائپ 1 ذیابطیس کے علاج کے قریب تر پہنچ گۓ ہیں
اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ کب سے دنیا کو میسر ہو سکتی ہے
محتاط اعداد و شمار کے مطابق 422 ملین لوگ اس وقت دنیا میں ذیابطیس میں مبتلا ہیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس میں ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو دونوں قسم کے مریض شامل ہیںآئسلیٹ کی ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے ٹائپ ون ذیابطیس کے علاج میں مدد مل سکتی ہے جو کہ مدافعتی نظام میں خرابی کے باعث ہوتی ہے مگر ایوان نے اس حوالے سے بھی متنبہ کیا کہ اس کو بنانے میں دس سال سے زیادہ عرصہ لگا
اور ابھی اس کو مکمل طور پر علاج کے لیۓ پیش کرنے میں کئی سال مذید لگ سکتے ہیں ان ہالوز کو کلینک میں استعمال کرنے سے قبل ان کا تجربہ چوہوں کے علاوہ دوسرے جانوروں پر بھی کرنا پڑے گاایوان کو امید ہے کہ دو سے پانچ سال تک یہ تیکنیک کامیابی سے علاج کے لیۓ پیش کی جاسکے گی
ایوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بیماری کے علاج کے طور پر انسولین کا استعمال بہت مشکل عمل ہے کیوں کہ اس وقت صرف امریکہ میں 6۔1 ملین بچے اور نوجوان ٹائپ ون ذیابطیس میں مبتلا ہیں۔مگر اسٹیم سیل ٹریٹمنٹ نے دنیا کو یہ امید دکھا دی ہے کہ کبھی نہ کبھی دنیا بھی ذیابطیس کے مرض کے علاج میں کامیاب ہو سکے گی