صحت کتنی بڑی نعمت ہے اس کے بارے میں اس کہانی کو پڑھ کر ضرور اندازہ لگایا جا سکتا ہے
آج پھر فیس نہ دینے پر اسے ٹیچر نے کھڑا کر دیا ۔ پوری کلاس اسے دیکھ کر ہنس رہی تھی اور وہ شرمندگی سے سر جھکاۓ کھڑی تھی ۔ مس جب غصے میں ہوتیں تو بس بولتی جاتیں ۔ ان کا ہر ہر لفظ گرم سیسے کی طرح کانوں میں اترتا جا رہا تھا اور اس کی آنکھوں کے آنسو بار بار ارد گرد کے منظر کو دھندلا دیتے تھے ۔ وہ اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں سے انہیں صاف کرنے کی کوشش کرتی مگر آنسوؤں کی نئي باڑ ایک بار پھر سب جل تھل کر دیتے
سارا دن کلاس میں اس ہزیمت کو اٹھانے کےبعد جب وہ ٹوٹے بستے اور گھسے ہوۓ جوتوں کے ساتھ گھر آرہی تھی تو راستے میں آنے والے ایک کانٹے سے اس کے گھسے جوتے سے گھس کر اس کی ایڑی کو بھی چھید ڈالا تھا جس نے صبح کی فیس نہ دینے کے زخم کو مذيد تازہ کر دیا ۔
گھر پہنچی تو داخلے سے قبل ہی اس کے باپ کی کھانسی کی آواز نے اس کا استقبال کیا ۔ اس کی ماں باپ کی چارپائی کی پائنتی کے ساتھ لگی اس کی کمر سہلا رہی تھی ۔ دوا کے نام پر عطائي ہسپتال کا لال شربت چمچ بھر کر پلا رہی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی کہ یہ بے اثر دوا اس کے باپ کی کھانسی کو کم نہیں کر سکتی اور ان کی صحت کو بہتر نیہں کر سکتی ، مگر نہ ہونے سے ہونا بہتر ہوتا ہے اس امید پر وہ کھانسی کے ہر اٹھنے والے دورے پر چمچ لے کر بوتل کے جن کی طرح حاضر ہو جاتی۔ مہنگے علاج کی طاقت نہ رکھنے والی یہ عورت اگر مرہم ڈاٹ پی کے جیسے کسی ذریعے سے واقف ہوتی تو یقینا اس کے شوہر کی صحت اور اس کے گھر کی حالت بہت مختلف ہوتی ۔ اور وہ آن لائن سستے طریقہ علاج کی مدد سے مستند ڈاکٹروں سے اپنے شوہر کا علاج کروا سکتی ۔
اس کو بہت بھوک لگی تھی جب باورچی خانے میں گئی تو چولہے پر موجود ہانڈی میں پانی ملی دال اس کے استقبال کے لیۓ تیار تھی ۔ جس کو دیکھتے ہی اس کی بھوک مر گئی ۔ اس نے یونیفارم تبدیل کیا اور خاموشی سے گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئي ۔
برابر والے گھر سے برتنوں کے کھنکنے کی آواز آرہی تھی ۔ وہ اس کے چاچا کا گھر تھا ۔ اس کے گھر میں اور اس کے چاچا کے گھر میں دن اور رات کا فرق تھا ۔ چاچا اگرچہ ایک چھوٹی سے کمپنی میں سیکیورٹی گارڈ تھے ۔مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ فارغ وقت میں چپس کا اسٹال بھی لگاتے تھے اس وجہ سے ان کے گھر کے معاشی حالات ان سے کافی مختلف تھے ۔ وہ اپنی بیٹی کی فیس وقت پر ادا کر دیا کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر ہر وقت اس طرح کی پانی والی دال بھی نہیں بنتی تھی
کمرے کے کونے میں بیٹھ کر وہ اس وقت کو یاد کرنا شروع ہو گئی جب کہ اس کے ابو بھی نوکری کرتے تھے اور پیسے گھر لے کر آتے تھے ۔ مگر اس کے ابو کی سب سے بری عادت اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے کی تھی ۔ وہ کسی قسم کی احتیاط کے قائل نہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ تمباکو نوشی اور بے احتیاطی نے انہیں ٹی بی کا مریض بنا ڈالا تھا ۔
اگرچہ بیمار تو صرف ابو ہوۓ تھے مگر ان کی صحت کی خرابی کے اثرات نے پورے گھر والوں کو پریشان کر دیا تھا ۔ اس کی امی جو کہ غیر تعلیم یافتہ تھیں ابو کی بیماری کے سبب کسی قسم کی نوکری بھی نہ کر سکتی تھیں ۔ ابو کو نوکری سےجواب مل گیا تھا ۔ امی کسی نہ کسی طرح گھر ہی میں چھولے ابال کر گھر کے باہر رکھ دیتیں ۔
جس کو سارا دن وہ گھر سے باہر بیٹھ کر بیچتی رہتی اور اس سے ملنے والے پیسے اتنے ہی ہوتے کہ ایک وقت کی پانی والی دال بنا کر کھائی جاتی یا پھر جو پیسے ہوتے وہ ابو کی دوا پر خرچ ہو جاتے ۔ جعلی ڈاکٹروں کے کیۓ گۓ علاج کے باعث اس کے ابو کی حالت بہتر ہونے کے بجاۓ روز بروز خراب ہوتی جا رہی تھی
وہ اکثر یہ سوال اپنے آپ سے پوچھتی کہ اگر اس کے ابو اپنی صحت کا خیال رکھتے یا ان کو اچھے علاج کی سہولت مل جاتی، تو کیا تب بھی ان کے گھریلو حالت اتنے برے ہوتے ؟؟؟
اس معصوم بچی کے ان تمام سوالوں کا جواب مرہم ڈاٹ پی کے کی ایپ میں پوشیدہ ہے ۔جہاں مستند ڈاکٹر حضرات ایسے تمام لوگوں کی مدد کے لیۓ آن لائن علاج کی سہولت کے ہمراہ موجود ہیں یا پھر ان سے رابطے کے لیۓ 03111222398 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے