پریاکلیمپسیا ایک ایسی بیماری ہے جو حاملہ خواتین کو حمل کے 20ویں یا بعض اوقات 34ویں ہفتے میں ہو سکتی ہے۔ جبکہ بعض خواتین کو ڈلیوری کے بعد 6 ہفتوں کے اندر ہو سکتی ہے۔ آج ہم اس حوالے سے سارہ کی کہانی اور پریاکلیمپسیا سے متعلق معلومات شئیر کریں گے۔
سارہ ہیوز نے چند دن پہلے اپنے دوسرے بچے کو جنم دیا تھا۔ اب وہ ہسپتال سے گھر منتقل ہو گئی تھی اور اپنی نوزائیدہ بچی کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔ مگر سارہ خود کو کافی کمزور محسوس کر رہی تھی۔ شروع میں تو اس نے سوچا کہ کمزوری شاید ولادت کے بعد ہونے والی تھکاوٹ کی وجہ سے ہے۔ مگر یہ محض تھکاوٹ نہیں تھی بلکہ اپنے جسم میں اسے کچھ اور تبدیلیاں بھی محسوس ہو رہی تھیں۔
اس کی بینائی دھندلی تھی، سانس پھول رہی تھی، اور سر میں مسلسل ہلکا سا درد تھا۔ سارہ نے اپنے شوہر کو یہ کیفیت بتائی تو اس نے پنسلوانیا ہسپتال میں اپنی گائناکالوجسٹ کو فون کرنے کا کہا۔ سارہ نے جب ڈاکٹر کو فون پر اپنی ساری صورتحال بتائی تو ڈاکٹر نے اسے فورا ہسپتال پہنچنے کا حکم دیا۔ اس کے آبسٹیٹریشن نے اس کا معائنہ کیا اور اسے پریاکلیمپسیا کی تشخیص ہوئی۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کی نشاندہی بلڈ پریشر میں اضافہ اور پیشاب میں پروٹین کی زیادتی سے ہوتی ہے۔
سارہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ “میں نے نہیں سوچا تھا کہ میری یہ حالت پریاکلیمپسیا جیسی خطرناک بیماری کی وجہ سے ہوگی۔ میرا خیال تھا کہ میرا تو بچہ پیدا ہو چکا ہے اور پریاکلیمپسیا کا شکار تو صرف حاملہ خواتین ہو سکتی ہیں”۔
پریاکلیمپسیا کیا ہے؟
اگرچہ یہ بیماری ، حاملہ خواتین میں سب سے زیادہ عام ہے، لیکن سارہ جیسے معاملات میں عورت کی ڈلیوری کے بعد ہو سکتا ہے۔ سندھو سری نواس، ایم ڈی، ایم ایس سی ای، یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ہسپتال میں آبسٹیٹریکل سروسز کی ڈائریکٹر کہتی ہیں کہ “پریاکلیمپسیا، عام طور پر حمل کے 20ویں ہفتے کے بعد ہوتا ہے۔ تاہم، یہ عورت کی ڈلیوری کے بعد اور ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ہو سکتا ہے،”۔
اسکی صحیح وجہ معلوم نہیں ہے اور اس میں کئی چیزیں شامل ہیں۔ وہ اجزاء جو پریاکلیمپسیا کی نشوونما میں کردار ادا کر سکتے ہیں ان میں مدافعتی نظام کے مسائل، بچہ دانی میں خون کا کم بہاؤ، خون کی نالیوں کو پہنچنے والے نقصان اور جینیٹک عوامل شامل ہیں۔
پریا کلیمپسیا کی علامات
یہ مرض پانچ سے آٹھ فیصد خواتین کو متاثر کرتا ہے اور یہ ڈلیوری کے دوران کی اموات کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ان علامات میں شامل ہوسکتے ہیں: حمل کے دوران ہائی بلڈ پریشر، دھندلی نظر، سر درد، چہرے، ہاتھوں اور پیروں کی سوجن، پیٹ کے اوپری حصے میں درد، قے، سانس میں کمی، ہیلپ سنڈروم (پری لیمپسیا کی شدید شکل)۔
پریاکلیمپسیا کے لئے حساس افراد
پریاکلیمپسیا کی علامات کو جاننا بہت ضروری ہے، خاص طور پر ان خواتین کے لیے جن کو اس بیماری کا خطرہ زیادہ ہے۔ جن خواتین کو ہائی بلڈ پریشر ہے، انہیں پچھلے حمل کے دوران پریاکلیمپسیا ہوا ہے یا جن کو لیوپس، جیسی بیماریاں ہیں، انکو پریاکلیمپسیا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر سری نواس کہتی ہیں، “جن خواتین کو اسکا خطرہ ہے انہیں حمل سے پہلے پریگنینسی سے متعلق ادویات کے ماہر سے مشورہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے خطرے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور حمل کے نتائج کو بہتر کر سکیں۔ اگر یہ بیماری ہلکی ہو تب بھی یہ بچے کی نشوونما اور ماں کی صحت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اور اگر ماں کی حالت مستحکم ہو، تو ڈاکٹر کو حمل کے دوران صرف نگرانی اور ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن اگر عورت کی حالت خراب ہو جائے یا شدید ہو جائے تو اس بیماری کا واحد علاج بچے کو جنم دینا ہے۔”
پریاکلیمپسیا کی تشخیص
ڈاکٹر سری نواس اور اڈی ہرشبرگ، ایم ڈی، یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ہاسپٹل میں آبسٹیٹریکل سروسز کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر نے اس بیماری سے متعلق مزید تعلیم اور مانیٹرنگ کی ضرورت کو سپورٹ کرنے کے لیے، ‘ہارٹ سیف مدر ہوڈ پروگرام ‘ بنایا، ایک ایسا پروگرام جو نئی ماؤں کو ‘وائرلیس بلڈ پریشر کف’ کے ساتھ گھر بھیجتا ہے۔
ڈاکٹر سری نواس کہتے ہیں، “یہ پروگرام خواتین کو بلڈ پریشر ٹیسٹ کرنے کے لیے کلینک میں آئے بغیر ان کی نگرانی کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے، ہمیں امید ہے کہ اس طرح ان کے بلڈ پریشر کی نگرانی کرکے، ہم بیماری کے شدید ہونے سے پہلے ہی حل کر سکتے ہیں۔”
آج، سارہ اپنے تجربے کے بارے میں کھل کر بات کرتی ہے اور پریاکلیمسیا کے خطرے سے دوچار خواتین کے لئے کام کرتی ہے۔ سارہ اپنے تجربے کے بارے میں کہتی ہیں کہ، “میں پین میڈیسن کے ڈاکٹروں کی شکر گزار ہوں جن کے پاس اس بیماری کے حوالے سے تازہ ترین معلومات اور تحقیقات موجود ہیں جن کی مدد سے انہوں نے میرے مرض کی جلد تشخیص کی۔ چند دن میگنیشئم سلفیٹ “کھانے اور آکسیجن ماسک پہننے کے بعد میں صحتیاب ہو کر واپس اپنے پیاروں کے درمیان موجود تھی۔
میں مبین آفتاب اردو کانٹنٹ رائٹر ، میں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں۔ ویسے تو عمر کے لحاظ سے میں 32 سال کا ہوں پر تجربے کے اعتبار سے اپنی عمر سے کئی گنا بڑا ہوں میں ایک بچی کا باپ ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل اردو کو وہ مقام دے جو بحیثیت ایک قومی زبان اس کا حق ہے۔