جنس کا انتخاب کرنا جدید طبی ترقی کی بدولت اب ممکن ہو گیا ہے۔ اب اگر آپ بیٹی کی خواہش رکھتے ہوں یا بیٹے کی، جدید طبی تکنیکوں کی مدد سے من چاہی جنس حاصل کر سکتے ہیں۔ گو کہ صحت مند بچے کی پیدائش والدین کی اولین ترجیح ہوتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر پہلے سے آپ کا بیٹا ہو تو آپ بیٹی کی خواہش رکھیں گے۔ اور اگر پہلے سے کئی بیٹیاں ہوں تو بیٹے کی خواہش کرنا ایک قدرتی بات ہے۔
اپنی من پسند جنس کا انتخاب کرنا اب کئی سائنسی طریقوں سے ممکن ہو گیا ہے۔ جنس کے انتخاب کی تکنیکوں کے بارے میں ہائی ٹیک، لو ٹیک اور نو ٹیک آپشنز درج ذیل ہیں:
اگر آپ حاملہ ہونے کیلئے سائنسی طریقے کا سہارا لے رہی ہیں تو آپ بچے کی جنس کا انتخاب کر سکتی ہیں۔ پری امپلانٹیشن جینیاتی تشخیص (پی جی ڈی) کے ساتھ، جو ان وٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) کے ساتھ مل کر استعمال ہوتا ہے، میں دراصل ڈاکٹر ‘ پیٹری ڈش’ میں تقسیم ہونیوالے جین سے ایک خلیہ نکال کر معائنہ کرتے ہیں بعد ازاں ماں کی بچہ دانی میں صرف مطلوبہ جنس کے ایمبریو ہی لگا تے ہیں۔
ڈاکٹر پیٹری ڈش میں تیزی سے تقسیم ہونے والے جنین سے ایک خلیہ نکال سکتے ہیں اور جنس کا تعین کرنے کے لیے اس کا معائنہ کر سکتے ہیں۔ ماں کی بچہ دانی میں صرف مطلوبہ جنس کے ایمبریو ہی لگائے جا سکتے ہیں۔تاہم بچے کی جنس کا انتخاب پی جی ڈی کے ذریعے کرنا نہ صرف متنازعہ ہے بلکہ مہنگا بھی ہے۔
دراصل یہ طریقہ جینیٹک ٹیسٹنگ سے گزرنے والے خطرناک جینیٹک مسائل سے دوچار جوڑوں کی مدد کیلئے متعارف کروایا گیا تھا۔ اکثر ذرخیزی کے مراکز اور طبی تنظیمیں بغیر کسی طبی مسئلے کے جنس کا انتخاب کرنے کو ناپسند کرتی ہیں۔ بعض جینیٹک مسائل جیسے کہ ‘ڈیوشین مسکولر ڈسٹرافی’ یعنی ڈی ایم ڈی جو کہ زیادہ تر لڑکوں میں پائی جاتی ہے۔
پی جی ڈی، پری ایمپلانٹیشن جینیٹک ٹیسٹنگ (پی جی ٹی) کا حصہ ہے میں، پری ایمپلانٹیشن جینیٹک اسکریننگ (پی جی ایس) بھی شامل ہوتا ہے۔ پی جی ایس میں کروموسوم کی تعداد کو شمار اور کروموسومل ایبنارمیلٹی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
بعض فرٹیلیٹی یعنی زرخیزی کے کلینک والدین کو اپنے پسندیدہ جنس کا انتخاب کرنے کی اجازت دیتے ہیں خصوصا جب انکے پہلے سے ایک ہی جنس کے بچے ہوں۔ اس عمل کیلئے ‘ فیملی بیلینسنگ یعنی خاندانی توازن کی اصطلاح’ استعمال ہوتی ہے۔
اسپرم سارٹنگ ( اسپرم چھانٹنا )
اسپرم سارٹنگ، جسے مائیکرو سورٹ میتھڈ بھی کہا جاتا ہے، میں فلو سائٹومیٹری کا استعمال کرتے ہوئے لڑکی پیدا کرنیوالے اسپرم یعنی ‘ ایکس اسپرم’ کو لڑکا پیدا کرنیوالے ‘وائی اسپرم’ سے الگ کیا جاتا ہے۔ اور جب لیبارٹری میں مخصوص فلوروسینٹ مواد سے داغا جاتا ہے تو زیادہ چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ مطلوبہ جنس کا اسپرم یا تو ماں کی بچہ دانی میں انٹرا یوٹرن انسیمینیشن (آئی یو آئی) کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے یا وٹرو میں انڈے کو فرٹیلائز کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پی ڈی جی جو مطلوبہ جنس کے انتخاب کیلئے 100 فیصد درست طریقہ ہے، کے مقابلے میں اسپرم سارٹنگ، زیادہ قابل اعتماد نہیں ۔
شیٹلز کا طریقہ
شیٹلز میتھڈ کے مطابق ایکس اسپرم سست رفتار مگر زیادہ لچکدار اور دیر تک زندہ رہتے ہیں۔ جبکہ وائی اسپرم تیز حرکت کرتے ہیں مگر کم عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ بیٹے کے خواہشمندوں کیلئے اوویولیشن کے قریبی دنوں میں جنسی تعلق قائم کرنا بہترین ہے۔ کیونکہ تیز رفتار وائی اسپرم کا انڈے تک پہنچنے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔
وہلن کا طریقہ
وہلن طریقے کے مطابق عورت کے جسم میں سائیکل کے مخصوص اوقات میں بائیو کیمیکل تبدیلیوں کی وجہ سے وائی یا ایکس اسپرم فرٹیلائز ہوتے ہیں۔ لہذا اس تھیوری کے مطابق بیٹے کے خواہشمندوں کو حمل ٹھہرانے کیلئے اوویولیشن سے 4 سے 6 دن پہلے جبکہ بیٹی کے خواہشمندوں کو 2 سے 3 دن پہلے جنسی تعلق قائم کرنا چاہئے۔ وہیلن طریقہ کار کی کامیابی کے کوئی خاص شواہد موجود نہ ہونے کے علاوہ ناقدین کے مطابق اوویولیشن سے 4 سے 6 دن پہلے جنسی تعلق قائم کرنا بہت غیر حقیقی ہے۔ کیونکہ اسپرم عام طور پر زیادہ سے زیادہ 3 دن زندہ رہتے ہیں۔
جنس کے انتخاب کی کٹس (جینڈر سلیکشن کٹس)
بچے کے جنس کے انتخاب میں مشکلات دور کرنے والی کٹس بھی دستیاب ہیں۔ جو دراصل انڈے اور اسپرم کے گرد حالات کو تبدیل کر کے اندام نہانی کی نالی کو غذائی سپلیمنٹس اور ڈوچس کے ذریعے ایکس یا وائی اسپرم کیلئے زیادہ ریسیپٹیو یا قابل قبول بناتی ہیں۔ تاہم بیشتر ماہرین جنس کے انتخاب کی ان کٹس کے دعووں کو مشکوک سمجھتے ہیں۔
غذا اور غذائیت
گو کہ مطلوبہ جنس حاصل کرنے کیلئے کوئی مخصوص غذا نہیں ہے تاہم لوگوں نے اس حوالے سے بھی کچھ مفروضے قائم کئے ہوئے ہیں۔ بعض نظریات کے مطابق زیادہ کیلشیم اور کم سوڈیم والی غذائیں کھانے سے بیٹی کی پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کے مطابق بیٹی کے حصول کیلئے خوراک میں دہی، انڈے اور چاکلیٹ شامل کرنے چاہییں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پوٹاشیم سے بھرپور کیلے اور نمکین غذائیں بیٹے کی پیدائش کے چانسز بڑھاتی ہیں۔
جنسی پوزیشنوں کے جنس پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے کئی مفروضے پائے جاتے ہیں۔ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کھڑے ہو کر جنسی فعل کرنے سے بیٹا پیدا کرنے جبکہ مشنری پوزیشن بیٹی کے پیدا ہونے کے امکان کو بڑھاتی ہے۔ اسی طرح پہلے آرگیزم ہونے کے بارے میں بھی کئی افسانے موجود ہیں۔
میں مبین آفتاب اردو کانٹنٹ رائٹر ، میں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں۔ ویسے تو عمر کے لحاظ سے میں 32 سال کا ہوں پر تجربے کے اعتبار سے اپنی عمر سے کئی گنا بڑا ہوں میں ایک بچی کا باپ ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل اردو کو وہ مقام دے جو بحیثیت ایک قومی زبان اس کا حق ہے۔