حمل ضائع ہونے سے عورت کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نرسوں کے ہیلتھ اسٹڈی 11 کے اعداد و شمار کے مطابق نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دیگر امراض میں مبتلا خواتین کے مقابلے میں اسقاط حمل والی خواتین کا 70 سال سے پہلے مرنے کا امکان کافی زیادہ ہے۔
بوسٹن کے ہارورڈ میڈیکل اسکول میں میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مصنف، جارج چاوارو، ایم ڈی کہتے ہیں، “اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد موجود ہیں کہ عورت کی زندگی میں مختلف تولیدی واقعات جیسے اسقاط حمل، بعد میں دل کی بیماری اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔”
تحقیق کے مطابق “اسقاط حمل جیسے واقعات خواتین اور ان کے ڈاکٹروں کے لیے ان بیماریوں کے بڑھنے کے ابتدائی وارننگ سائن ہو سکتے ہیں۔”
کیا حمل ضائع ہونا، عورت کی مجموعی صحت کو ظاہر کرتا ہے؟
انکے مطابق، “امریکہ میں خواتین کی اوسط عمر 81 سال ہے۔ تاہم خواتین کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ چونکہ میرے کئی حمل ضائع ہوئے ہیں اس لئے میں 70 سال کی عمر سے پہلے مر جاؤں گی۔”
تقریباً 4 میں سے 1 حمل ضائع ہوتا ہے
امریکی ادارہ صحت اسٹیٹ پرلز کے مطابق، تقریبا تمام حملوں میں 26 فیصد، ضائع ہو جاتے ہیں اور صرف 10 فیصد تک طبی طور پر تسلیم شدہ ہوتے ہیں یعنی ایسے حمل جو الٹراساونڈ پر دیکھے گئے ہیں یا ضائع ہونے کے بعد حمل کے ٹشو کی شناخت ہوئی ہے۔
اس کے بعد محققین نے دوسرے اثرانداز ہونے والے عوامل پر قابو پایا جس میں باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی ) نسل، شادی کی حیثیت، حمل کے دوران ذیابیطس، حمل کے دوران ہائی بلڈ پریشر، سگریٹ نوشی، کھانے کی عادات، جسمانی سرگرمی، اور والدین کی دل کے دورے یا فالج کی ہسٹری شامل تھی۔ ان عوامل کے مطالعے اور حالیہ غذائی اور زندگی گزارنے کی عادات کو مدنظر رکھ کر، محققین نے جانا کہ جن خواتین کا حمل ضائع ہوا ان میں اسقاط حمل کا تجربہ نہ کرنے والی خواتین کے مقابلے میں قبل از وقت موت کا امکان 19 فیصد زیادہ تھا۔
زچگی کی بیماری اور اموات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے
وہ کہتی ہیں کہ ” میرے خیال میں کہ اس تحقیق کے نتائج خاصے دلچسپ ہیں۔ گو کہ مطالعے نے اہم عوامل پر قابو پا لیا، مگر اسکے علاوہ بھی بہت سی چیزیں حمل ضائع ہونے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ میرے پاس بے شمار حمل ضائع ہونے کے کیسز آتے ہیں مگر میں نہیں چاہتی کہ اس تحقیق کی بنیاد پر کوئی بھی عورت جلد مرنے کے خوف میں مبتلا ہوں۔”
بہت سے عوامل اسقاط حمل کو متاثر کر سکتے ہیں
بہت سی خواتین اسقاط حمل کی اطلاع نہیں دیتی ہیں
یہ مطالعہ خود رپورٹ کردہ ڈیٹا پر انحصار کرتا ہے جو ہر دو سال بعد اکٹھا کیا جاتا تھا، جونگھیم کہتی ہیں کہ ” بے شمار مریضوں کیساتھ کام کرنے کی وجہ سے میں جانتی ہوں کہ بہت سی خواتین پریگنینسی ضائع ہونے کی اطلاع نہیں دیتی”۔
مطالعہ کے نتائج کو بڑی آبادی پر لاگو نہیں کیا جا سکتا
باؤر کا کہنا ہے کہ پریگنیننسی اور موت کے بارے میں ممکنہ تعلق کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے علاوہ یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ اس تحقیق کی شرکاء نرسیں زیادہ تر سفید فام، غیر ہسپانوی گروپ کی تھیں۔ ” لہذا آپ ان نتائج کو دوسری نسلوں پر لاگو نہیں کر سکتے،”۔
اسقاط حمل کے جذباتی مسائل بھی قابل توجہ ہیں
باؤر کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے، لہذا اس پر مزید تحقیق
اگر آپ یا آپکی قریبی عزیزہ اسقاط حمل کے بعد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔
کیا پریگنینسی ضائع ہونے کے بعد دل کی بیماری کیلئے جلد معائنہ کرانا ضروری ہے؟
ماہر امراض قلب سے مشورے کیلئے ابھی اس لنک پر کلک کریں۔
ڈاکٹر چاوارو کے مطابق، “اس سلسلے میں معالجین مریضہ کی تولیدی تاریخ، پریگنینسی کی تاریخ کا جائزہ لیکر ہی فیصلہ کریگا کہ قلبی صحت معلوم کرنے کیلئے ٹیسٹ ہوں یا نہیں۔ شروع میں خوراک میں تبدیلی اور جسمانی سرگرمی میں اضافہ کی سفارش کی جا سکتی ہے”۔
مرہم ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
Android | IOS |
---|---|