کزن میرج کا خیال جیسے ہی کسی ذہن میں آتا ہے اس کے حوالے سے ہاں یا ناں دو طرح کے خیال پیدا ہو جاتے ہیں ۔ کچھ لوگ کزن میرج کو کامیاب ترین قراردیتے ہیں اور اس کے ثبوت میں وہ ایسے بہت سارے جوڑوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں جو کہ ایک کامیاب اور خوش وخرم زندگی گزار رہےہیں
مگر اس کے ساتھ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ کزن میرج کے اثرات آنے والی نسل میں پیدائشی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں جس کی وجہ سے اس سے احتراز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے
کزن میرج کے کامیاب ہونےکے امکانات
ایک بہترین شادی سے مراد ایسی شادی ہوتی ہے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزاریں اور اس کے ساتھ ساتھ صحت مند اولاد سے بھی نوازے جائيں تو ایسی شادیاں کامیاب رہتی ہیں
ہمارے ملک میں شادی دو افراد کے بجاۓ دو خانداںوں کا ملاپ قرار دیا جاتا ہے ایسی صورتحال میں اگر خاندان کے اندر ہی کزن کے ساتھ شادی کی جاۓ تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس شادی میں ایڈجسمنٹ کے مسائل کم ہوتے ہیں اور پورا خاندان ساتھ ہوتا ہے اس وجہ سے ایسی شادیاں نرم گرم کے باوجود ٹوٹتی نہین ہیں اور آخر کار کامیاب ہو جاتی ہیں
کزن میرج کی ناکامی کے خطرات
برطانیہ میں 2007 سے لے کر 2010 تک ایک تحقیق کی گئی جس کو بورن ان بریڈ فورڈ کا نام دیا گیا اس تحقیق کی روشنی میں جو بچے پاکستانی نژاد برطانوی تھے ان کی تعداد صرف تین فی صد تھی مگر ان تین فی صد میں سے تیس فی صد بچے جنیاتی بیماریوں میں کزن میرج کے سبب مبتلا ہوۓ جو کہ ایک بڑی شرح ہے
کزن میرج کے سبب ہونے والی جنیاتی بیماریاں
جین کلینک کے ڈاکٹر نند ساگر کے مطابق ہر حمل میں جنیاتی خرابی کا امکان دو فی صد تک موجود ہوتا ہے اور اس امکان میں کزن میرج کی شرط نہیں ہے لیکن کزن میرج میں یہ امکان پانچ فی صد تک بڑھ جاتا ہے
دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر سو کزن میرج میں سے پانچ کے بچے کسی نہ کسی جنیاتی مسلے سے دوچار ہو سکتے ہیں
کزن میرج کے باوجود کچھ جوڑوں کے بچے نارمل کیسے ہوتے ہیں
کزن میرج کے سبب جنیاتی بیماریوں سے یہ مراد نہیں ہے کہ بچہ پیدائشی طور پر کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ بعض اوقات پیدائشی طور پر نارمل حالات میں پیدا ہونے والا بچہ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کا شکار اور کمزور قوت مدافعت کا بھی شکار ہو جاتا ہے
کزن میرج کے خطرے کو کم کرنے والے عوامل
اگرچہ کزن میرج کے نتیجے میں ہونے والے بچے کے اندر جیناتی خرابی کے امکانات پانچ فی صد تک ہوتے ہیں مگر اس کو روکنے کے لیۓ جیسا کہ دنیا بھر میں کزن میرج کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے
مگر اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے اقدامات ہیں جن کی مدد سے کزن میرج سے قبل ہی اس کے نقصانات کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے
اس کے لیۓ شادی سے قبل جوڑے کا میڈيکل چیک اپ اور کچھ میڈیکل ٹیسٹ بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ ان دونوں کے کروموسوم کا ٹیسٹ کروا کر بھی اس چیز کو چیک کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے والے بچے کے اندر کوئي جنیاتی خرابی نہ ہو
اگر رپورٹ مثبت نہ ہو تو اس صورت میں ایسی شادی سے بچنا چاہیۓ اور مثبت رپورٹ کی صورت میں شادی کر کے کزن میرج کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے
شادی سے قبل کرواۓ جانے والے ٹیسٹ
کزن سے شادی کرنے سے قبل جو ٹیسٹ لازمی طور پرکروا لینا چاہۓ ان کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہے
سب سے پہلے تو مکمل جینیٹک ہسٹری معلوم کرنی چاہیۓ تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ خاندان میں ذیابیطس ، دل کی بیماری یا کینسر یا بلڈ پریشر کے مرض کے پھیلاؤ کی شرح کیا ہے اور کیا اس مرض کی منتقلی نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے
اس کے علاوہ ایچ آئي وی اور ایس ٹی ڈی کی جانچ بھی بہت ضروری ہے اس کے علاوہ سب سے ضروری ٹیسٹ جو بہت ضروری ہے وہ تھیلی سیمیا کا ٹیسٹ ہے کیوں کہ اگر میاں بیوی تھیلی سیمیا مائنر ہوں تو ان سے پیدا ہونےوالا بچہ تھیلی سیمیا میجر ہو سکتا ہے جو کہ خطرناک ہو سکتا ہے
اس کے علاوہ دونوں میاں بیوی کا جینو ٹائپ ٹیسٹ کروانا بھی ضروری ہے کیوں کہ اس کے ذریعے ہی بچے کے اندر کروموسوم کے ذریعے ماں باپ کی خصوصیات کے ساتھ سااتھ ان کی بیماریاں بھی منتقل ہوتی ہیں
ان تمام میڈیکل ٹیسٹ کے لیۓ کسی بھی ماہر جنسیات یا ماہر نسواں ڈاکٹر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے