بائی پولر ڈس آرڈر سے مراد ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جس کی وجہ سے انسان کے موڈ میں بہت تیزی سے تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔موڈ کی اس تبدیلی کو نفسیات کی زبان میں مینیا کا نام دیا جاتا ہے اس وجہ سے اس بیماری کو مینیک ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے
بائی پولر ڈس آرڈر کی علامات
بنیادی طور پر بائی پولر ڈس آرڈر کی تین بڑی علامات ہوتی ہیں ان میں سے ایک مینیا دوسری ہائپو مینیا اور تیسری ڈپریشن ہوتی ہے
مینیا
اس حالت میں انسان بہت جزباتی ہو جاتا ہے ۔ وہ خود کو بہت زيادہ پر جوش اور توانائی سے بھر پور محسوس کرتا ہے اس حالت میں کچھ افراد جزبات کے تحت منشیات کے استعمال بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ ہیجان کا شکار ہونے کی وجہ سے ایسے افراد ہر جزبے کو اپنی انتہا پر محسوس کرتے ہیں جس میں محبت ، نفرت ، غصہ غرض ہر چیز شامل ہوتی ہے
ہائپو مینیا
اس کا تعلق بائی پولر ڈس آرڈر ٹو سے ہوتا ہے اگرچہ اس کی علامات بھی مینیا کی طرح ہی ہوتی ہیں مگر اس کی شدت اس کے مقابلے میں کم ہوتی ہے ان افراد کے موڈ میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے تاہم اس کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ انسان معاشرتی افعال ادا کرنے سے قاصر ہو جاۓ
ڈپریشن
بائی پولر ڈس آرڈرکے شکار افراد کی تیسری علامت ڈپریشن کی ہوتی ہے ایسے افراد بے وجہ اداسی ، نا امیدی اور کمزوری کا شکار رہنے لگتے ہیں ان کا کسی کام میں دل نہیں لگتا ہے اور یہ لوگ خود کشی کے لیۓ بھی تیار ہو جاتے ہیں ۔
بائی پولر ڈس آرڈر کی اقسام
بنیادی طور پر اس کی تین اقسام ہوتی ہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہوتی ہیں
بائی پولر ڈس آرڈر ون
اس قسم میں ہائپو مینیا اور ڈپریشن کی علامات پہلے سامنے آتی ہیں اور پھر اس کے بعد مینیا کی علامات سامنے آتی ہیں یعنی پہلی دو علامات کے بعد تیسرے درجے میں موڈ میں بہت شدت آجاتی ہے دوسرے لفظوں میں عام فہم زبان میں دورہ بھی پڑ سکتا ہے
بائی پولر ڈس آرڈر ٹو
بائی پولر ڈس آرڈر کی اس قسم کا شکار عام طور پر خواتین زيادہ ہوتی ہیں اس میں پہلے دو ہفتوں تک ڈپریشن کی علامات سامنے آتی ہیں اس کے بعد تین سے چار دن تک وہ ہائپو مینیا کا شکار ہوتی ہیں
سائکلو تھیمیا
اس قسم میں ہائپو مینیا اور ڈپریشن کی علامات باری باری سامنے آتی رہتی ہیں ایسے افراد ایک سے دو مہینوں تک اس کا شکار رہتے ہیں اور ان میں کبھی بائی پولر ڈس آرڈر ون اور کبھی ٹو کی علامات سامنے آرہی ہوتی ہیں
بائی پولر ڈس آرڈر کی وجوہات
اگر چہ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے مگر اس کے حوالے سے اب تک ماہرین نفسیات اور ڈاکٹر حضرات تحقیق کر رہے ہیں اور اب تک اس کے ہونے کی حتمی وجوہات کا پتہ نہیں لگایا جا سکا ہے تاہم کچھ وجوہات کے بارے میں انہوں نے بتایا ہے جو اس طرح سے ہیں
جینیٹکس
اگر والدینبائی پولر ڈس آرڈرکا شکار ہوں تو ماہر نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ بچے بھی کسی نہ کسی عمر میں اس کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن یہ کوئی حتمی وجہ نہیں ہے کیوں کہ اکثر لوگوں کے والدین میں سےکسی کوبائی پولر ڈس آرڈر نہیں ہوتا مگر وہ افراد اس کا شکار ہوتے ہیں
ہمارا دماغ
اللہ تعالی نے انسان کے دماغ کو اس طرح سے بنایا ہے کہ اس میں اگر کسی قسم کی تکلیف ہو تو اس صورت میں بھی علامات بائی پولر ڈس آرڈر کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں
ماحول کا اثر
بعض اوقات مستقل بیماری اور ذہنی دباؤ بھی انسان کو بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار بنا دیتے ہیں
بائی پولر ڈس آرڈر کی جانچ کا طریقہ
اس بیماری کو کسی ایک میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی جانچ کے لیۓ ماہر ڈاکٹر اور ماہر نفسیات بہت سارے مختلف اقسام کے ٹیسٹ کرواتےہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیں
فزیکل جانچ
اس میں ڈاکٹر خون ، پیشاب کے ٹیسٹ کرتے ہیں اور پورے جسم کا معائنہ کرتے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ جسم میں کسی قسم کی خرابی تو نہیں ہے
ذہنی صحت کی جانچ
فزیکل جانچ کے بعد ذہنی صحت کی جانچ کی باری آتی ہے جس کو ڈاکٹر مختلف سیشن کے ذریعے جانچنے کی کوشش کرتا ہے
موڈ کا چارٹ
اس کے لیۓ ڈاکٹر مریض کے موڈ کا ایک چارٹ ترتیب دیتا ہے اور اس چارٹ کے مطابق موڈ میں ہونے والی تبدیلی کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے دورانیہ اور تواتر کا معائنہ کیا جاتا ہے اس کے ذریعے بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے
اس بیماری کی جانچ کے لیے کسی ماہر اور تجربہ کار ماہر نفسیات سے رابطہ بہت ضروری ہے اگر آپ اس طرح کی کسی علامت کا شکار ہیں تو اس کے لیۓ آن لائن سیشن یا ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ کے لیۓ مرہم ڈاٹ پی کے کی ویب سائٹ وزٹ کریں یا پھر 03111222398 پر براہ راست رابطہ کریں
علاج
اس بیماری کے علاج کے ليۓ ڈاکٹر جو طریقے استعمال کرتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں
ادویات
اس بیماری کے علاج کے لیۓ موڈ کو کنٹرول کرنے والی دوائیں ، اینٹی ڈپریسنٹ ،اور سکون آور ادویات تجویز کی جاتی ہیں
سائیکو تھراپی
یہ ماہر نفسیات انجام دیتے ہیں جس میں مختلف سیشن کے ذریعے بیماری کی وجوہات جانی جاتی ہیں اور اس کے بعد ان مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے اور مریض کو اس بات کے لیۓ تیار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی حالت کا مقابلہ اپنی قوت ارادی سے کر سکے