عام طور پر پہلی سہہ ماہی کے دوران یعنی گیارہویں سے چودہویں ہفتے کے درمیان حمل ضائع ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ آٹھ ہفتوں کے اسکین میں دل کی دھڑکن کا پتہ چلنے کے بعد، اسقاط حمل کا امکان صرف 2 فیصد اور 10 ہفتوں کے بعد1 فیصد سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ اگرچہ 12ویں ہفتے کے اسکین کے بعد اس کا پتہ لگ سکتا ہے مگر اس مرحلے میں حمل ضائع ہونے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ چونکہ حمل ضائع ہونے کی علامات واضح نہیں ہوتی، اس لئے اسقاط حمل ماں کے لئے صدمے کا سبب بن سکتا ہے۔
آج ہم ایک ایسی ہی بہادر خاتون کی کہانی لائے ہیں جو حمل ضائع ہو جانے کے خوف سے گزری اور اب اپنے حمل کی کہانی بتانا چاہتی ہیں جسے اسقاط حمل قرار دیا گیا تھا، لیکن اب وہ 9 ماہ کی ایک قابل فخر ماں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انکی کہانی سے آپ کو بھی حوصلہ اور آگاہی ملے۔
ہر شادی شدہ جوڑے کی طرح میں اور میرا ساتھی بھی بچے کے خواہش مند تھے اور جب ہمیں یہ محسوس ہوا کہ ہمارے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہے تو ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہی۔ مگر میں طبی لحاظ سے مزید تصدیق کی خواہش مند تھی۔
چوتھا ہفتہ- بیٹا ایچ سی جی
چونکہ میں خود بھی ایک ڈاکٹر ہوں اس لئے اور کچھ متجسس ہونے کی وجہ سے بھی میں نے گھریلو حمل کے ٹیسٹ سے زیادہ ایکوریٹ ٹیسٹ کروانا پسند کیا۔ لہذا اپنے حمل کے چوتھے ہفتے کے دوران، میں نے بیٹا ایچ سی جی ٹیسٹ کروایا۔
بیٹا ایچ سی جی ٹیسٹ خون میں انسانی کوریونک گوناڈو ٹروپن (ایچ سی جی) کی مقدار کا اندازہ لگاتا ہے۔ یہ ہارمون حمل کے دس دن بعد تیار ہوتا ہے اور دوسرے ٹیسٹوں سے زیادہ صحیح حمل کا پتہ چلا سکتا ہے۔اس ٹیسٹ کے مطابق پیمائش 186 تھی۔ یعنی مصدقہ پریگنینسی۔
پانچواں ہفتہ، سونوگرافی
انٹرا یوٹرین انسیمینیشن (آئی یو آئی) ایک فرٹیلیٹی ٹریٹمنٹ یعنی ذرخیزی کا علاج ہے جس میں اسپرم کو براہ راست عورت کے یوٹرس میں رکھا جاتا ہے۔ جبکہ قدرتی حمل میں اسپرم کو ویجائنا سے سرویکس کے ذریعے پہلے یوٹرس اور پھر فیلوپین ٹیوب تک جانا پڑتا ہے۔ ہم نے بھی حمل کے لئے آئی یو آئی، کا طریقہ اپنایا تھا۔ اس لئے مجھے اپنی تاریخوں کے بارے میں کافی یقین تھا۔ اس لئے مقررہ وقت پر میں نے اپنی گائناکالوجسٹ کو کال کی اور 5ویں ہفتے کے لئے ملاقات طے ہوا۔
ہم مقررہ وقت پر چیک اپ کے لیے گئے۔ ڈاکٹر نے ویجائنا کی سونوگرافی (الٹراساونڈ) کیا مگر اسے الٹراساونڈ کے دوران ‘گیسٹیشنل سیک’ یعنی حمل کی تھیلی نہیں ملی۔ لہذا ڈاکٹر نے ہمیں دوبارہ ایچ سی جی کرنے کو کہا۔ پس چاروناچار ہم نے ایچ سی جی ایک مرتبہ پھر کیا اور اس بار رزلٹ پہلے سے بھی بہتر یعنی 1500 آیا۔ جو کہ ایک صحتمند حمل کی علامت ہے۔
اگر حمل کے شروع کے دنوں میں یہ 48 دنوں میں دوگنا ہو جائے تو یہ حمل صحت مند ہوتا ہے۔ یہ خبر ہمارے لئے اطمینان بخش تھی، یوں اس بار ہم جب گھر لوٹے تو ہم خوش اور مطمئن تھے۔
ویجائنل اسکین اور ٹیوبل پریگنینسی
ہم ایک بار پھر طے شدہ وقت پر یعنی ٹھیک تین دن بعد گائناکالوجسٹ کے پاس چیک اپ کے لئے گئے۔ ڈاکٹر نے ویجائنل اسکین کیا اور ایک بار پھر اسے گیسٹیشنل سیک دیکھنے میں ناکامی ہوئی۔ اس بار ڈاکٹر نے ٹیوبل پریگنینسی کا شبہ ظاہر کیا۔ جس میں فرٹیلائزڈ انڈا یوٹرس سے باہر پیٹ کے کسی حصے میں پرورش پاتا ہے اور یہ حالت جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا ڈاکٹر نے ہمیں سرجری کا مشورہ دیا۔
ریڈیالوجسٹ سے سونوگرام
میں اور میرے شوہر ڈاکٹر کی رائے سے متفق نہیں تھے، اس لئے ہم نے ریڈیالوجسٹ سے سونوگرام کرانے کا فیصلہ کیا۔ ہم اگلے ہی دن ریڈیالوجسٹ کے پاس گئے۔ اس نے اسکین کیا تو اسے نہ صرف گیسٹیشنل سیک نظر آ گئی بلکہ اس نے ٹیوبوں میں امپلانٹیشن نہ ہونے کی بھی تصدیق کی۔ یہ خوشبری سن کر تو جیسے ہمارے سروں سے کوئی بھاری بوجھ سرک گیا ہو۔
مثل مشہور ہے کہ خوشی زیادہ دیر تک نہیں رہتی۔ ہمارے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ اس بار حمل کی پروگریس اور بچے کی دل کی دھڑکن چیک کرنے کیلئے دس دنوں بعد، یو ایس جی یعنی الٹراساونڈ کروانا تھا۔ ہم اس دن کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے اور اپنے ہونیوالے بچے کی دل کی دھڑکن سننے کیلئے پرجوش تھے۔
مگر ریڈیالوجسٹ نے یہ کہہ کر کہ بچے کا دل نہیں دھڑک رہا ہماری خوشی ملیامیٹ کر دی۔ دکھ کی شدت سے ہم اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکے۔ مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔
ایچ سی جی انجیکشن
ریڈیالوجسٹ سے مایوس ہو کر ہم دوسری رائے لینے کے لئے ایک اور ڈاکٹر کے پاس گئے۔ اس نے ایچ سی جی بلڈ ٹیسٹ دوبارہ کروایا، کیونکہ اگر ایچ سی جی نہ بڑھا تو ہمیں اسقاط حمل کروانا ہوگا۔ تاہم خوش قسمتی سے اس بار رپورٹ میں بہتری آئی تھی۔ اسکے بعد ڈاکٹر نے مجھے دو ہفتوں کے لئے ہفتہ وار ایچ سی جی انجیکشن تجویز کئے۔
دھڑکن کی واپسی
یہ ہماری زندگی کے طویل ترین 15 دن تھے۔ میں نے پرامید ہونے کی کوشش کی، لیکن کبھی کبھی، میں یہ سوچ کر رو پڑتی تھی کہ شاید میں ایک مردہ بچے کے ساتھ جی رہی ہوں۔ طویل انتظار کے بعد بلآخر وہ دن آ گیا۔ ہم حمل کے 8ویں ہفتے کے دوران الٹراساونڈ کیلئے گئے تھے، جس نے ہمیں بہت کم امید دلائی تھی۔ لیکن اللہ کو ہماری خوشی منظور تھی، اس بار جب اسکین کے دوران ریڈیالوجسٹ نے جیسے ہی پروب کو میرے پیٹ پر رکھا تو بچے کی دھڑکن موجود تھی۔ اور یہ ایک صحت مند حمل تھا۔
یقین محکم رکھیں
آج ہمارا چھوٹا سا معجزہ 9 ماہ کا ہو چکا ہے۔ اسلئے میں تو آپکو بی یہ مشورہ دونگی کہ امید کو کبھی نہ ٹوٹنے دیں۔ اگر اس قدر تکلیف دہ صورتحال ہم نے دیکھی ہے تو آپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بھی غلطی کر سکتے ہیں۔ اسلئے اسقاط حمل سے پہلے ہمیشہ دوسری رائے حاصل کریں۔
میں مبین آفتاب اردو کانٹنٹ رائٹر ، میں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں۔ ویسے تو عمر کے لحاظ سے میں 32 سال کا ہوں پر تجربے کے اعتبار سے اپنی عمر سے کئی گنا بڑا ہوں میں ایک بچی کا باپ ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل اردو کو وہ مقام دے جو بحیثیت ایک قومی زبان اس کا حق ہے۔