جگر کا ٹکڑا اپنے والد کوعطیہ کر کے ایک بیٹی نے پاکستان کی طبی تاریخ میں پہلی بار کسی ایڈز کے مریض کے کامیاب جگر ٹرانسپلانٹ کو ممکن بنایا۔
بیٹی کی باپ سے لازوال محبت کی مثال
آج ہم ایک ایسی نوجوان بیٹی کی کہانی لائے ہیں جس نے اپنے والد کی محبت میں ایک بڑی قربانی دی۔
یہ قصہ ہے پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی 21 سالہ کوثر کی، جو بی ایس سی کی طالبہ ہیں۔ کوثر نے اپنے والد کو اپنے جگر کا ایک ٹکڑا عطیہ کیا کر کے مثال قائم کی ہے۔
ایڈز کے مریض کے لئے ٹرانسپلانٹ کی اہمیت
ایڈز کے مریضوں کیلئے متعارف کئے جانے والے انتہائی فعال ‘اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی ( یا ہارٹ ) اور ایچ آئی وی انفیکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کا استعمال، ایڈز کے مریضوں کی عمر بڑھاتا ہے۔ آجکل ایڈز کے زیادہ تر مریض ایڈز کی وجہ سے نہیں مرتے ہیں بلکہ جسمانی اعضاء فیل ہونے کی وجہ سے مرتے ہیں۔
اعضاء کی ان بیماریوں میں جگر فیل ہونا، آخری اسٹیج کی جگر کی بیماری (ای ایس ایل ڈی)، ہیپٹائٹس سی اور گردوں کے فیل ہونے کی بیماریاں شامل ہیں۔ لہذا ان مریضوں کے لئے اعضاء کی پیوندکاری یا ٹرانسپلانٹ ان کی زندگی کو بڑھانے کا واحد آپشن ہوتے ہیں۔
گاور خان کا جگر ٹرانسپلانٹ
جگر ٹرانسپلانٹ کے متعلق سرجن سے مشورے کے لئے اس لنک پر کلک کریں۔
’آج شاید میں زندہ نہ ہوتا‘
ایڈز کے بارے میں گاور بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے جب وہ ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھے تو انہیں خون دیا گیا تھا۔ “مجھے کئی خون کی بوتلیں لگیں اور اسی کے بعد میں اس موذی مرض (ایڈز) میں مبتلا ہو گیا”۔
گاور خان ٹرانسپلانٹ آپریشن سے پہلے ایک طویل اور تکلیف دہ انتظار سے گزرے۔ اپنے ان تلخ تجربات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ، “گمبٹ ہسپتال سے پہلے وہ جہاں بھی گئے انھیں کہا گیا کہ ایڈز میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کا ٹرانسپلانٹ ممکن نہیں”۔ ہسپتال انتظامیہ کے سرد رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں ڈاکٹروں سے پوچھتا تھا کہ کیا مجھے اس طرح مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا تو وہ کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔”
کچھ عرصہ پہلے گاور خان کے سینے میں تکلیف ہوئی تو ڈاکٹروں نے جگر کے کینسر کی تشخیص کی۔ “مجھے بتایا گیا کہ اس کا واحد علاج جگر کا ٹرانسپلانٹ ہی ہے لیکن میں نے کئی ہسپتالوں کے چکر لگائے، میں جہاں جاتا میرا علاج کرنے سے انکار کر دیا جاتا تھا۔”
ہر مریض علاج کے بعد تندرستی کی آس پر جیتا ہے اور ہمدردی کے دو بول کے لئے ترستا ہے۔ گاور خان بھی اسی صورتحال سے گزرا۔ “میں ڈاکٹروں سے لڑتا تھا۔ ان سے کہتا تھا کہ کتنی بے رحمی سے کہتے ہو کہ میرا کچھ نہیں ہو سکتا۔ نہ حوصلہ دیتے ہو، نہ کوئی آس دلاتے ہو۔ کوئی مجھے ڈانٹ دیتا، کوئی خاموش ہو جاتا ہے”
گمبٹ ہسپتال کی مسیحائی
“’میں وہاں گیا تو میں نے وہاں بھی ڈاکٹروں سے لڑنا شروع کر دیا کہ آپ لوگ میرا کچھ نہیں کرو گے، بس رٹے رٹائے جملے بولو گے۔‘ گاور کی امید کے برعکس گمبٹ کے ڈاکٹرز نے نہ تو انھیں ڈانٹا اور نہ ہی خاموش رہے۔
گاور خان کہتے ہیں کہ “جب مجھے یہ بتایا گیا کہ میرا جگر کا ٹرانسپلانٹ ہو جائے گا تو ان کی بیٹی کوثر، جو پڑھائی کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب کرتی ہے، نے اصرار کیا کہ وہ ٹرانسپلانٹ کے لیے اپنا جگر دیں گی۔” گاور خان کی بیٹی کوثر جس نے اپنے والد کو جگر کا ٹکڑا عطیہ کیا، کا کہنا تھا کہ جب والد کے جگر ٹرانسپلانٹ کے بارے میں ڈاکٹر نے بتایا تو ان کو یہ ڈر تھا کہ کہیں عطیے میں دیر کی وجہ سے ڈاکٹر ٹرانسپلانٹ سے انکار نہ کر دیں اس لیے انھوں نے فوراً رضا کارانہ طور پر یہ پیشکش کر دی۔
کوثر اس بارے میں کہتی ہیں کہ ‘جگر کا ٹکڑا کیا اگر پورا جگر بھی نکال لیں تو مجھے خوشی ہوگی’ ۔
مرہم ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
Android | IOS |
---|---|