بچے کی آمد کی خبر والدین کیلئے مسرت و طمانیت کا باعث ہوتی ہے۔ مگر حمل کے دوران ہر سال تقریباً 20 لاکھ والدین اپنا بچہ کھو دیتے ہیں – یہ اندازا ہر 16 سیکنڈ میں ایک بچہ بنتا ہے۔ نوزائیدہ بچے کو سنبھالنے کی خوشی کا تجربہ کرنے کے سے محروم رہ جانے والی غمزدہ ماؤں کو ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ان کی غلطی تھی جس کی وجہ سے ان کے بچے کی جان چلی گئی۔
جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ایک بار جب بے پناہ غم اور صدمے کے لمحات گزر جائیں ، تو ان ماوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ اکیلی نہیں ہیں ۔ اور یہ کہ ان کے بچے کے ضائع ہونے میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔
ہمیں ایک ماں کی طرف سے اپنے نوزائیدہ بچے کو ایک خط ملا، اور اس میں، ایسا لگتا ہے کہ وہ ان احساسات کو الفاظ میں بیان کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں جن سے اسقاط حمل کا شکار ہونے والے والدین گزرتے ہیں۔ ایک ماں اسقاط حمل کے بعد اپنے کھوئے ہوئے بچے کو ایک خط لکھتی ہے، اور اس خط کو پڑھ کر ہم سب ان جذبات اور احساسات کو محسوس کر سکتے ہیں۔
اپنی محبوب ہستی سے اگر ادھوری ملاقات ہو تو اس کی تشنگی ہم سب دیر تک محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ماں بھی محسوس کرتی ہے جب ملاقات سے پہلے ہی وہ اپنے بچے سے محروم ہو جائے۔
ماں لکھتی ہے کہ، “میری جان، ہم یک جان دو قالب تھے مگر ہماری ملاقات تشنہ رہی۔ ہم نے کبھی بھی مناسب طریقے سے اور مکمل ملاقات نہیں کی، اگرچہ ہم دونوں آپ کی زندگی کے ہر لمحے میں ساتھ رہے”۔
ایک ماں کے لیے اس کی اولاد سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں۔ اور جس بچے سے وہ اچانک محروم ہو جائے اس کی محبت تو تڑپ میں بدل جاتی ہے۔ ماں مزید لکھتی ہے کہ،
” تم اس دنیا میں آئے اور اپنا کوئی اثر ڈالے بغیر، یوں اچانک اتنا جلدی اور خاموشی سے مجھ سے دور ہو گئے۔ یوں تو تمہارے بابا اور میرے علاوہ کسی کو بھی تمہارے وجود کا علم نہیں تھا، لیکن یہ جان رکھو کہ تم ہمیں بہت محبوب تھے، بہت عزیز تھے۔ اور یہ احساس ہمیں شاد کر دیتا ہے کہ تم جانتے ہو کہ تم ہمیں کتنے پیارے تھے۔
مختصر قیام
جو والدین اسقاط حمل کے کرب سے گزرتے ہیں ان کو ان کے بچے کے بارے میں یہ تسلی دی جاتی ہے کہ ان کا بچہ گو بہت کم زندہ رہا، یا بہت چھوٹا تھا لہذا اس کا ضائع ہونا زیادہ تکلیف دہ نہیں ہونا چاہئے۔ مگر والدین کے احساسات یکسر مختلف ہوتے ہیں ۔یہ ماں لکھتی ہے کہ،
“کچھ لوگ کہیں گے کہ آپ کا قیام اتنا مختصر تھا اور اتنا کم عرصہ ہم نے ساتھ گزارا ہے کہ بمشکل ہی مجھ پر کوئی اچھا اثر ڈالا ہوگا۔ لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے کہ اتنے کم وقت میں بھی میں نے اپنے دل میں تمہارے لیے جگہ بنا لی تھی۔ اس مختصر وقت میں بھی، میں نے جو تعلق تم سے استوار کیا وہ کسی سے نہیں کیا۔ میرے دل میں جو جگہ تمہارے لئے مخصوص ہے اسے کوئی لے سکتا۔”
مخصوص مقام
بچے کی امید کے ساتھ ہی والدین اس کے متعلق سہانے سپنے دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے منصوبے بنانا، خریداری کرنا اور آپس میں گفتگو کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ ماں اپنے خط میں آگے لکھتی ہیں کہ ،
“تمہاری امید پیدا ہونے سے بھی پہلے۔ جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں آپ چاہئیں، لاشعوری طور پر، میں نے اپنے دل میں آپ کو جگہ دینی شروع کر دی۔ میں نے ہر وقت آپ کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ کے لیے جگہ بنانا مشکل نہیں تھا۔ میرے دل میں آپ کی جگہ بہت آسانی سے تقریباً راتوں رات بن گئی، ایسا لگتا ہے کہ میرے دل میں یہ جگہ صرف آپ کے لئے مخصوص تھی۔”
خلا
بچے کے لئے ماں باپ کے دلوں میں خاص جذبات ہوتے ہیں جو صرف ان کے بچے کے لئے ہی مخصوص ہوتے ہیں۔ جب وہ اپنے بچے سے محروم ہو جائیں اور وہ جگہ خالی رہ جائے تو اس کی کسک ابدی ہوتی ہے۔ ماں آپ نے خط میں اس کا ذکر یوں کرتی ہے،
“میں نے برسوں سے اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی ہے جو آپ نے چھوڑا ہے۔ میں نے سوچا تھا، شاید، جب آپ کا بھائی پیدا ہوگا تو آپ کی جگہ وہ لے لے گا۔ لیکن جب اس کی امید ہوئی تو میرا دل اور بڑا ہوا اور آپکے بھائی کو الگ جگہ دیدی، آپ کی جگہ تو وہیں موجود ہے، ویسی ہی، خالی۔۔۔ آپکی جگہ صرف آپ کے لئے ہی مخصوص ہے۔”
وقت کا مرہم
بچے کو کھونے کے بعد اس کے صدمے سے سنبھلنے میں وقت لگتا ہے۔ تاہم جیسے جیسے وقت کا پہیہ گھومتا ہے، پرانے زخم بھرنے لگتے ہیں۔ ان کی جلن اور کاٹ کم ہو جاتی ہے۔ ماں اس بارے میں لکھتی ہیں کہ، “اب میرے دن زچگی کے معمول کے اتار چڑھاو سے بھرے ہوئے ہیں۔ میرا دل اور دماغ اکثر آپ کے بھائی کی محبت اور دیکھ بھال سے سرشار رہتا ہے۔ آپ نے جو خالی جگہ چھوڑی ہے وہ اب میرے ذہن پر پہلے جیسی حاوی نہیں ہے۔”
مصروفیت کے بادل چھٹ جائیں تو اپنے کھوئے ہوئے بچے ماں کو ضرور یاد آتے ہیں،
” لیکن کبھی کبھی، جب ہر سو خاموشی ہو اور گھر میں سکوت ہو تو، میرے دل میں وہ خالی جگہ اتنی زور سے گونجتی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تمہارا غم پھر سے مجھے نڈھال کر دیتا ہے۔ اور میں اس کی طاقت کی شدت سے دنگ رہ جاتی ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ان لمحات سے لڑنا بہتر نہیں ہے۔
اس کے بجائے، میں خاموش بیٹھتی ہوں اور آپ کے بارے میں سوچتی ہوں اور یہ کہ اگر آپ ہوتے تو کیا کیا ہوسکتا تھا؟ کبھی کبھی میں وہ کہانی کی کتاب اٹھا کر پڑھتی ہوں جو میں نے آپ کی امید ہونے پر خریدی تھی۔ اب میں نے اپنے دماغ کو سمجھا لیا ہے کہ ہم نے جو کھویا اس پر غمگین رہنا ٹھیک ہے۔”
ناقابل تلافی
بچے کا نقصان ماں باپ کے لئے ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ ماں اپنے بچے کے نام اس خط میں بار بار اس کا اظہار کرتی ہے، “ایسا لگتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، یا کتنا ہی وقت بیت جائے، میں اس خلاء کو پر نہیں کرسکتی جو آپ نے چھوڑا ہے۔
اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے دل میں وہ جگہ چھوڑ دوں گی جہاں آپ ہیں ۔ میں اسے دوسری چیزوں سے بھرنے کی کوشش کرنا اور خود کو آپ کے نہ ہونے کی جھوٹی تسلیاں دینا چھوڑ دوں گی۔ میرے دل میں یہ جگہ صرف اور صرف آپ کے لئے مخصوص ہے۔ اور میں آپ کو ہمیشہ، اپنے دل میں، اسی جگہ پر رکھوں گی۔”
میں مبین آفتاب اردو کانٹنٹ رائٹر ، میں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں۔ ویسے تو عمر کے لحاظ سے میں 32 سال کا ہوں پر تجربے کے اعتبار سے اپنی عمر سے کئی گنا بڑا ہوں میں ایک بچی کا باپ ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل اردو کو وہ مقام دے جو بحیثیت ایک قومی زبان اس کا حق ہے۔