کرونا ویکسین کی تیاری کی خبر نے دنیا بھر کو ایک امید کی کرن دکھائی ، جس کے بعد محسوس یہ ہوا کہ دنیا میں اب ایک بار پھر کاروبار زندگی بتدریج نارمل ہو جائيں گے ۔ مگر اس کی تیاری کی تمام تر تیز کوششوں کے باوجود اس کے تجربات اور ان میں کامیابی میں ایک سال کا طویل عرصہ لگا
اس ایک سال نے ہم سے ہمارے سیکڑوں پیاروں کو جدا کردیا ۔ لیکن کرونا ویکسین کی تیاری کی خبر پر سب نے سکھ کا سانس لیا ۔ مگر مختلف ممالک اور مختلف کمپنیوں کی تیار کی گئی کرونا ویکسین اور اس کی استعداد کے بارے میں مختلف قیاس آرائياں وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے آتی رہیں ۔
کرونا ویکسین لگانے والے دو سال بعد مر جائيں گے


حالیہ دنوں میں واٹس ایپ کی ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان لوریٹ لیوک مونٹاگنیر کے ایک انٹرویو کے حوالےسے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ جو افراد بھی اب کرونا وائرس سے بچنے کی ویکسین لگا رہے ہیں وہ دو سال بعد ہلاک ہو جائيں گے
اس انٹرویو میں جب ان سے اس وبائی صورتحال میں لوگوں کے حوالے سے ویکسین لگانے کے متعلق جب سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں ان کا یہ کہنا تھا کہ
‘یہ بات سوچ سے بالاتر ہے کہ وبا کے دوران لوگوں کو اس کی ویکسین لگائی جاۓ ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ وائرس اینٹی باڈیز پیدا کر رہا ہوتا ہے جو کہ اس کو مضبوط بناتی ہیں اور یہ ایک قدرتی عمل ہے جو کہ ہر وائرس میں ہوتا ہے۔اور جب اس وائرس کے لیۓ کوئی دوا تیار کی جاتی ہےتو وہ اس دوا کے خلاف اینٹی باڈی بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔
اس حوالے سے انڈیا ٹوڈے کے اینٹی فیک نیوز وار روم کا یہ کہنا ہے کہ لیوک نے فرنچ ادارے کو اپنے انٹرویو میں وبا کی اس صورتحال کے دوران ویکسینیشن کو ایک میڈیکل غلطی ضرور قرار دیا ہے اور انہوں نے اس بات کو قابل غور قرار دیا ہے کہ وائرس ابھی اپنے اندر اور اپنی اینٹی باڈیز کے اندر تبدیلی کے مرحلے میں ہے ۔
مگر انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ وہ لوگ جو یہ ویکسین لگا رہے ہیں دو سال بعد ہلاک ہو جائيں گے
انٹرنیشنل میڈیا کی جانب سے انٹرویو کی تصدیق نہ ہونا


واٹس ایپ پر وائرل ہونے والا یہ انٹرویو دنیا بھر کے کسی بھی پر اعتماد انٹرنیشنل میڈیا نے کور نہیں کیا ہے جب کہ اس انٹرویو پر موجود لوگو جو کہ رئير فاونڈیشن امریکہ کا ہے وہ کوئی میڈیا ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی ایکٹیوسٹ فاونڈیشن ہے جس کا بیان کسی بھی طرح قابل بھروسہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے
اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس فاونڈیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اس ویکسین کو لگانے والے افراد دو سال کے اندر ہلاک ہو جائيں گے۔ اس کے علاوہ پریس انفارمیشن بیورو نے بھی اس خبر کو جعلی قرار دیا ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ اس کو شئير نہ کریں ۔
پروفیسر لیوک کی جانب سے کیۓ جانے والے اعتراض کا جواب
کرونا وائرس ریسورس سینٹر امریکہ کی نمائندہ میری این لیبرٹ نے نوبل انعام یافتہ پروفیسر لیوک کی جانب سے اٹھاۓ جانے والے اعتراضات کے جواب میں کہا کہ وائرس کے اندر کچھ اینٹی باڈیز ایسی موجود ہوتی ہیں جو کہ اینٹی وائرل سمجھی جاتی ہیں اور وہی اینٹی باڈیز ویکسین کی صورت میں وائرس سے پھیلنے والی بیماری کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یہی طریقہ کرونا ویکسین کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر وائرس میں کچھ اینٹی باڈیز ایسی بھی ہوتی ہیں جو کہ وائرس کو سپورٹ کر رہی ہوتی ہیں ۔جن کو اے ڈی ای کہا جاتا ہے ۔ اے ڈی ای وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت کچھ اینٹی باڈيز وائرس کے پھیلاؤ کی راہ ہموار کرتی ہیں اور بعض اوقات وائرس کی طاقت کو بھی بڑھاتی ہیں ۔ مگر ایسی مثالیں کم ہی ہوتی ہیں
پروفیسر لیوک کا متنازعہ ماضی
پروفیسر لیوک کو سال 2008 میں فزیالوجی اور میڈیسن میں ان کی تحقیق پر نوبل انعام دیا گیا جس میں ان کے ہمراہ ان کے دو اور ساتھی فرانکوز بئیر اور ہیرالڈ زیور ہاوسن بھی شریک تھے ۔ ان کو یہ ایوارڈ ایچ آئي وی نامی وائرس کی دریافت پر دیا گیا
مگر ان کا یہ انعام تنازعات سے بھر پور تھا کیوں کہ ان کے اوپر دوسرے لوگوں کی ریسرچ چوری کر کے اپنے نام سے چھپوانے کا الزام تھا ۔
اسی طرح حالیہ کرونا ویکسین کے بیان سے قبل بھی انہوں نے گزشتہ سال کرونا وائرس کے حوالے سے یہ بیان دیا تھا کہ کرونا وائرس ایک مصنوعی تیار کیا گیا وائرس ہے جو کہ چین میں ووہان کی لیبارٹریز میں تیار کیا گیا ہے
اسی طرح نوبل انعام حاصل کرنے کے اگلے ہی سال فرانس کی ایک ویب سائٹ کے مطابق ڈاکٹر لیوک نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ایچ آئی وی وائرس جان لیوا نہیں ہے بلکہ مضبوط قوت مدافعت سے اس کو شکست بھی دی جا سکتی ہے ۔
اسی ویب سائٹ کے مطابق پروفیسر لیوک ہر قسم کی ویکسینیشن کے سخت مخالف نظریات رکھتے ہیں اس کے مقابلے میں وہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے اوپر زیادہ یقین رکھتے ہیں
پروفیسر لیوک کے بیان کے اثرات
پروفیسر لیوک کے اس بیان نے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے مگر مستند ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ یہ شر پسند عناصر کی جانب سے خلفشار پھیلانےکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے
کرونا وائرس کی ویکسینیشن کے حوالے سے کسی بھی قسم کے مستند اور تجربہ کار ڈاکٹروں سے مشورے کے لیۓ مرہم ڈاٹ پی کے کی ایپ ڈاون لوڈ کریں یا پھر 03111222398 پر رابطہ کریں